ہفتہ، 2 جنوری، 2016

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے


دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے



کون پتھرا گیا ھے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جَمی سی ہے



وقت رھتا نہیں کہیں ٹِک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے



آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے


گُلزار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں