منگل، 26 جنوری، 2016

وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر......... احمد فراز

وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں
 بہارہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں