بدھ، 13 جنوری، 2016

تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے ........ غالب

تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے 
حُورانِ خلد میں تیری صورت اگر ملے

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ساقی 
گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مَے جس قدر ملے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں