آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوئے خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جُڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں