اتوار، 3 جنوری، 2016

نہیں دھڑکا مجھے رسوائیوں کا............قتیل شفائی

نہیں دھڑکا مجھے رسوائیوں کا
سفر در پیش ہے تنہایوں کا

چھُپا بیٹھا ہوں اپنی خاشی میں
گیا موسم وہ بزم آرائیوں کا

یہیں بس جاؤں دل تو چاہتا ہے
مگر یہ شہر ہے ہرجائیوں کا

نہیں مشکل نگاہیں پھیر لینا
بہانہ چاہیے شہنائیوں کا

ذرا دیکھو میرے دل میں اُتر کر
سمندر نام ہے گہرائیوں کا

دکھائے خواب سے کچھ آہٹوں نے
بدن بنتا گیا پرچھائیوں کا

قریب آتے گئے وہ جیسے جیسے
بھرم کھُلتا گیا دانائیوں کا

قتیل آنکھوں میں ہے تصویرِ یُوسف
کرم مجھ پر بھی ہے کچھ بھائیوں کا.

قتیل شفائی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں