یہ کیسا خوف تھا کہ رخت سفر بھی بھول گۓ
وہ کون لوگ تھے جو اپنے گھر بھی بھول گئے
یہ کیسی قوت پرواز ڈرنے پیدا کی
پرندے اڑتے ہوئے اپنے پربھی بھول گئے
دکھوں نے چھین لی آنکھوں کی ساری بینائی
ہم اس کا شہر توکیا راه گزربھی بھول گئے
خیال تھا کہ سنائیں گے حال دل لیکن
ہم اس کے سامنے عرضِ ہنربھی بھول گئے
جدا ہوئے تو کھلا ہے تمہاری بستی میں
ہم ایک دل ہی نہیں، چشم تربھی بھول گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں