منگل، 12 جنوری، 2016

وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ....احمد فراز

وحشتیں بڑهتی گئی ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ


ہم نے اک عمر بسر کی ہےغمِ یار کے ساته 
میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ


اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ


اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سُنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ


ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ


شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجیے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ


ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ


جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فراز
سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں