جمعہ، 15 جنوری، 2016

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے......محسن نقوی

ابر برسا نہ ہوا تیز چلی ہے اب کے
کتنی ویران تیری یادوں کی گلی ہے اب کے

صبح کی دھوپ اتر آئی مرے بالوں میں
شب ڈھلی ہے کہ مری عمر ڈھلی ہے اب کے

کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا ہے اسے
یہ قیامت بڑی مشکل سے ٹلی ہے اب کے

یا میری آنکھ کی کشکول میں آنسو چمکا
یا اندھیرے میں کوئی شمع جلی ہے اب کے

صحنِ گلشن کی ہوا ہے کہ قضا کی دستک
کتنی سہمی ہوئی اک ایک کلی اب کے

کس کو فرصت ہے دھواں دیکھنے جائے محسن
جھونپڑی شہر سے کچھ دور جلی ہے اب کے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں