جمعہ، 8 جنوری، 2016

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے........ محسن نقوی

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پہ کیا گزرتی ہے

تعلقات کبهی نہ اس قدر ٹوٹے تهے
کہ تری یاد بهی دل سے خفا گزرتی ہے

وه اب ملے بهی تو ملتا ہے اس طرح جیسے 
بُجهے چراغ کو چهو کر ہوا گزرتی ہے

فقیر کب کے گئے جنگلوں کی طرف مگر
گلی سے آج بهی اُن کی صدا  گزرتی ہے

یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا  گزرتی ہے

بهنور سے بچ تو گئ کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا  گزرتی ہے

نہ پوچه انّا کی بغاوتیں محسن
درِ قبول سے بچ کےدعا  گزرتی ہے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں