ہفتہ، 23 جولائی، 2016

اپنی روش جدا ہے، ادا اور ہے میاں
ہم اور ہیں، ہمارا خدا اور ہے میاں

باطن کے کوڑھیوں کو تو دوزخ بھی کچھ نہیں
ایسے منافقوں کی سزا اور ہے میاں

جیسا کہ فرق ہے دل و دنیا کے درمیاں
احسان اور شے ہے، بھلا اور ہے میاں

دل ہے، یہاں نمودِ ہوس کی مجال کیا
اس تخلیے کی آب و ہوا اور ہے میاں

اس مرتبہ نہ دیں گے کوئی جزیۂِ وصال
اس بار اہلِ دل کی رضا اور ہے میاں

تسبیح سے حذر ہے تو محراب سے مفر
اپنا طریقِ حمد و ثنا اور ہے میاں

یعنی خدا نہ ہو تو کوئی اس طرح کہے؟
سوچا کچھ اور ہی تھا، ہوا اور ہے میاں

اپنی تو داڑھ بھی نہیں گیلی ہوئی ابھی
ساقی سے پوچھ کر یہ بتا، اور ہے میاں؟

تو ’’اور‘‘ کے معانی نہیں جانتا ہے دوست
اب تجھ سے کیا کہوں کہ یہ کیا ’’اور‘‘ ہے میاں

کیوں کر نہ بے ریا ہو کہ سینہ علی کا ہے
سینہ علی کا ہے سو نوا اور ہے میاں

علی زریون




پیر، 23 مئی، 2016

یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم........ فیض احمد فیض

یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم

دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم

تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم

لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصلِ گُل کا ماتم



ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی....... فیض احمد فیض

ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی

آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی، گل رنگ نظر آئی

امیدِ تلطف میں‌ رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی

یک جان نہ ہو سکیے، انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں‌ شمشیرِ شناسائی

اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں ، اے چشمِ تماشائی


سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں.......فیض احمد فیض


سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں
یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی مدّتیں
جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی مروّتیں
چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم، جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں
مری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر، کہیں لکھ رکھی ہوں مسرّتیں



جمعہ، 6 مئی، 2016

وقت کے پار جا سکو تو سنو

وقت کے پار جا سکو تو سنو
میرے کچھ لوگ وہاں رہتے ہیں
ان سے کہنا بہت اداس ہوں میں 
ان سے کہنا یہ دل نہیں لگتا 
ان سے کہنا بہت اکیلی ہوں
ان سے کہنا میں رویا کرتی ہوں
ان سے کہنا مجھے قرار نہیں 
ان سے کہنا ہے انتظار بہت 
ان سے کہنا وہ مجھ سے بات کریں 
ان سے کہنا زبان سوکھ گئی
ان سے کہنا کلام باقی ہے 
ان سے کہنا میری یہ دو آنکھیں 
ان سے کہنا ترس گئیں ان کو 
ان سے کہنا وہ اب ملیں مجھ سے 
ان سے کہنا مجھے بلائیں کبھی 
وقت کے پار جا سکو تو سنو
میرے کچھ لوگ وہاں رہتے ہیں


جی میں آتا ہے الٹ دیں انکےچہرے سے نقاب....... ساغر صدیقی



ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکےچہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں

بارہا دیکھا ہے ساغر رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں




اتوار، 17 اپریل، 2016



سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی 
تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی 

رندوں کے ڈر سے آتشِ مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابر لگی ہوئی

آباد کرکے شہرِ خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغِ ستمگر لگی ہوئی 

آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میانِ قاتل و خنجر لگی ہوئی

لاؤ تو قتل نامہ میرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی


اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی......... حبیب جالب

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی 

یہ بات نئی نسل کو سمجھانا پڑے گی 
کہ عریاں کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی 

سر آنکھوں پر ہم اسکو بٹھالیتے ہیں اکثر
جسکے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی 

ہر شخص  اپنے سر پر کفن باندھ کر نکلے
حق کےلیے لڑنا تو کبھی بغاوت نہیں ہوتی 




منگل، 29 مارچ، 2016

آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر........ وصی شاہ


آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم

ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب
راستے کھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

چاند کی کرنوں نے ہم کو اسطرح بوسہ دیا
دیوتا ہونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

دھر گیا الزام جب سے اپنی حرمت پر کوئی 
بارشیں دھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

آج پھر محرومیوں کی داستان اوڑھ کر
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم

کھو گئے اندازبھی، آواز بھی، الفاظ بھی
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم



بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے................ وصی شاہ

بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے
کچھ ایسے ہی تمہارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے

محبت ہو کہ نفرت ہو اسی سے مشورہ ہوگا
میری ہر کیفیت میں استخارہ ساتھ رہتا ہے

سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن
دعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے

میرے مولا نے مجھ کو چاہتوں کی سلطنت دے دی
مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے

اگر سید میرے لب پر محبت ہی محبت ہے
تو پھر یہ کس لیے نفرت کا دھارا ساتھ رہتا ہے



ہفتہ، 12 مارچ، 2016

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے..... فیض احمد فیض

 نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے 

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کاگلہ کریں 
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں خوفِ روزِ سیاہ ہمیں کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن جو لگن اس آئینہ رو کی ہے



ہفتہ، 5 مارچ، 2016

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں....... حفیظ جالندھری

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں

ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
کِیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں

ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا 
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں

اُٹّھا ہوں اک جہانِ خموشی لئے ہوئے
ٹُوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں



دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا......... جون ایلیاﺀ

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا

ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا

نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا

جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں جا کے مر رہا

شہرِ فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچہ یاد یار سے، کوئی نہیں اُبھر رہا



سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے...... احمد فراز


سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے

اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے



اتوار، 28 فروری، 2016

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے........ فیض احمد فیض

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے 

کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے


بدھ، 24 فروری، 2016

جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے

جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے
کچھ آنکھیں پاگل ہوتی ہیں، کچھ دل دیوانہ ہوتا ہے

کیوں آنکھیں چوکھٹ پر رکھ کر تم دنیا بھول کے بیٹھے ہو
کب چھوڑ کے جانے والے کو پھر واپس آنا ہوتا ہے

جب پیار کسی سے کرتے ہو کیوں واعظ سے گھبراتے ہو
یہ بات ہی ایسی ہوتی ہے، سب نے سمجھانا ہوتا ہے

یہ آنسو، شکوے، آہیں، سب بے معنی سی زنجیریں ہیں
کب اِن کے باندھے رکتا ہے، وہ جس کو جانا ہوتا ہے

میں تجھ کو کیسے بھولوں گا؟ تو مجھ کو کیسے بھولے گی؟
اک داغ سا باقی رہتا ہے، جب زخم پرانا ہوتا ہے

کچھ لوگ تمہاری محفل میں چپ چاپ اکیلے بیٹھے ہیں
اُن کے چہرے پہ لکھا ہے، جو پیار نبھانا ہوتا ہے

ہم اہلِ محبت کیا جانیں دنیا کی سیاست کو عاطف
کب ہاتھ ملانا ہوتا ہے کب ہاتھ چھڑانا ہوتا ہے


پیر، 15 فروری، 2016

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے.... سلیم کوثر

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے

یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے

ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے

راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے لیے

کتنی صدیوں کا لہو صفحہ مقتل پہ رہا
ایک سچائی کو تحریر میں لانے کے لیے

ترک دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آگیا خواہش دنیا کو جگانے کے لیے

ایک ہی آگ کا ایندھن نہیں بجھنے پاتا
دوسری آگ ہے تیار جلانے کے لیے

اب کہیں تازہ مسافت پہ نکلتے ہیں سلیم
اب تو وعدہ بھی نہیں کوئی نبھانے کے لیے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا.... مرزا اسد اللہ خان غالب


 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار  ہوتا


اتوار، 7 فروری، 2016

دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا ............... پنڈت برج نرائن چکبست

دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیّت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

ہم کو منظور ہے اے دیدۂ وحدت آگیں
ایک غنچہ میں تماشائے گلستاں ہونا

سر میں سودا نہ رہا پاؤں میں بیڑی نہ رہی
میری تقدیر میں تھا بے سر و ساماں ہونا

دل اسیری میں بھی آزاد ہے آزادوں کا
ولولوں کے لئے ممکن نہیں زنداں ہونا

دفترِ حسن پہ مہرید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودہ سے نمایاں ہونا

گل کو پامال نہ کر لعل و گُہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستارِ غریباں ہونا

ہے مرا ضبطِ جنوں، جوشِ جنوں سے بڑھ کر
تنگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

ہم اسیروں کی دعا ہے کہ چمن سے اک دن
دیکھتے خانہء صیّاد کا ویراں ہونا


کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ........ زہرا نگاہ


کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ
وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ

وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں
وہ مہر و مہہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ

ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ

ہم ایسے سادہ دلوں کی کیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمت سے اُمنڈے ہیں ہوشیار سے لوگ

لہو لہو ہوں جب آنکھیں تو کیسا وعدہِ دید
چلے گئے ہیں، سرِ شام کوئے یار سے لوگ

نسیم صبح کے جھونکے ہمیں بھی چھو کے گزر
ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسمِ بہار سے لوگ


صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی......... فیض احمد فیض

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون

رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون

پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانئیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون


منگل، 26 جنوری، 2016

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے......... احمد فراز


سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے

ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے

دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے

یہاں ہے کون میرا جو مجهے سمجهے گا فراز

میں کوشش کر کے خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے



کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے........ مُصطفیٰ زیدی



کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے


کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے

کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑرہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے




وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر......... احمد فراز

وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں
 بہارہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر


ہفتہ، 23 جنوری، 2016

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا....... احمد فراز


دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا

صبحدم چھوڑ گیا نکہتِ گل کی صورت
رات کو غنچہء دل میں سمٹ آنے والا

کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا

تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا

منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا

کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سرِ دار بھی لانے والا

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا



آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا...... بشیر بدر


آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی مِیل کا پتھر نہیں دیکھا

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوئے خنجر نہیں دیکھا

محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اُسے مڑ کر نہیں دیکھا

خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جُڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اُس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا




بدھ، 20 جنوری، 2016

اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا...... عرفان ستار



اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا
اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا

وہ ہو رہا ہے جو میں نہیں چاہتا کہ ہو
اور جو میں چاہتا ہوں وہی ہو نہیں رہا

نم دیدہ ہوں، کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت
چل چھوڑ، تجھ سے کہہ جو دیا، رو نہیں رہا

یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں
یہ داغ، سیلِ گریہ جسے دھو نہیں رہا

اب بھی ہے رنج، رنج بھی خاصا شدید ہے
وہ دل کو چیرتا ہوا غم گو نہیں رہا

آباد مجھ میں تیرے سِوا اور کون ہے؟
تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا

کیا بے حسی کا دور ہے لوگو۔ کہ اب خیال
اپنے سِوا کسی کا کسی کو نہیں رہا



یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے........ قتیل شفائ

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے

برنگِ عود ملے گی اسے مری خوشبو
وہ جب بھی چاہے بڑے شوق سے جلائے مجھے

میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گزار کر تری زلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے سارے جہاں‌کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے




حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے........... امجد اسلام امجد


حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارہ ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالمِ موجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے




دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا......... جون ایلیا


دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا
بُھولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا

جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ کر رہ گئے
کام تو کوئی نہیں تھا پر ہمیں جانا بھی تھا

اجنبی سا ایک موسم ایک بے موسم سی شام
جب اُسے آنا نہیں تھا جب اُسے آنا بھی تھا

جانیے کیوں دل کی وحشت درمیاں میں آگئی
بس یونہی ہم کو بہکنا بھی تھا بہکانا بھی تھا

اک مہکتا سا وہ لمحہ تھا کہ جیسے اک خیال
اک زمانے تک اسی لمحے کو تڑپانا بھی تھا



پیر، 18 جنوری، 2016

کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں........ عبید اللہ علیم

کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا


کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا


جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا


تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا


دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا


میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا


جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا


ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا