ہفتہ، 12 مارچ، 2016

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے..... فیض احمد فیض

 نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے 

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کاگلہ کریں 
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں خوفِ روزِ سیاہ ہمیں کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن جو لگن اس آئینہ رو کی ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں