اتوار، 7 فروری، 2016

کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ........ زہرا نگاہ


کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ
وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ

وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں
وہ مہر و مہہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ

ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ

ہم ایسے سادہ دلوں کی کیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمت سے اُمنڈے ہیں ہوشیار سے لوگ

لہو لہو ہوں جب آنکھیں تو کیسا وعدہِ دید
چلے گئے ہیں، سرِ شام کوئے یار سے لوگ

نسیم صبح کے جھونکے ہمیں بھی چھو کے گزر
ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسمِ بہار سے لوگ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں