اتوار، 7 فروری، 2016

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی......... فیض احمد فیض

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون

رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون

پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانئیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں