اتوار، 28 فروری، 2016

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے........ فیض احمد فیض

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے 

کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے


بدھ، 24 فروری، 2016

جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے

جو سمجھو پیار محبت کا اتنا افسانہ ہوتا ہے
کچھ آنکھیں پاگل ہوتی ہیں، کچھ دل دیوانہ ہوتا ہے

کیوں آنکھیں چوکھٹ پر رکھ کر تم دنیا بھول کے بیٹھے ہو
کب چھوڑ کے جانے والے کو پھر واپس آنا ہوتا ہے

جب پیار کسی سے کرتے ہو کیوں واعظ سے گھبراتے ہو
یہ بات ہی ایسی ہوتی ہے، سب نے سمجھانا ہوتا ہے

یہ آنسو، شکوے، آہیں، سب بے معنی سی زنجیریں ہیں
کب اِن کے باندھے رکتا ہے، وہ جس کو جانا ہوتا ہے

میں تجھ کو کیسے بھولوں گا؟ تو مجھ کو کیسے بھولے گی؟
اک داغ سا باقی رہتا ہے، جب زخم پرانا ہوتا ہے

کچھ لوگ تمہاری محفل میں چپ چاپ اکیلے بیٹھے ہیں
اُن کے چہرے پہ لکھا ہے، جو پیار نبھانا ہوتا ہے

ہم اہلِ محبت کیا جانیں دنیا کی سیاست کو عاطف
کب ہاتھ ملانا ہوتا ہے کب ہاتھ چھڑانا ہوتا ہے


پیر، 15 فروری، 2016

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے.... سلیم کوثر

پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے

یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے

ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے

راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے لیے

کتنی صدیوں کا لہو صفحہ مقتل پہ رہا
ایک سچائی کو تحریر میں لانے کے لیے

ترک دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آگیا خواہش دنیا کو جگانے کے لیے

ایک ہی آگ کا ایندھن نہیں بجھنے پاتا
دوسری آگ ہے تیار جلانے کے لیے

اب کہیں تازہ مسافت پہ نکلتے ہیں سلیم
اب تو وعدہ بھی نہیں کوئی نبھانے کے لیے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا.... مرزا اسد اللہ خان غالب


 
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسِل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائلِ تصوّف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار  ہوتا


اتوار، 7 فروری، 2016

دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا ............... پنڈت برج نرائن چکبست

دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیّت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

ہم کو منظور ہے اے دیدۂ وحدت آگیں
ایک غنچہ میں تماشائے گلستاں ہونا

سر میں سودا نہ رہا پاؤں میں بیڑی نہ رہی
میری تقدیر میں تھا بے سر و ساماں ہونا

دل اسیری میں بھی آزاد ہے آزادوں کا
ولولوں کے لئے ممکن نہیں زنداں ہونا

دفترِ حسن پہ مہرید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودہ سے نمایاں ہونا

گل کو پامال نہ کر لعل و گُہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستارِ غریباں ہونا

ہے مرا ضبطِ جنوں، جوشِ جنوں سے بڑھ کر
تنگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

ہم اسیروں کی دعا ہے کہ چمن سے اک دن
دیکھتے خانہء صیّاد کا ویراں ہونا


کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ........ زہرا نگاہ


کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ
وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ

وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں
وہ مہر و مہہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ

ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ

ہم ایسے سادہ دلوں کی کیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمت سے اُمنڈے ہیں ہوشیار سے لوگ

لہو لہو ہوں جب آنکھیں تو کیسا وعدہِ دید
چلے گئے ہیں، سرِ شام کوئے یار سے لوگ

نسیم صبح کے جھونکے ہمیں بھی چھو کے گزر
ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسمِ بہار سے لوگ


صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی......... فیض احمد فیض

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی
کیا خبر آج خراماں سرِ‌گلزار ہے کون

شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون

رات مہکی ہوئی آتی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرحدار ہے کون

پھر درِ دل پہ کوئی دینے لگا ہے دستک
جانئیے پھر دلِ وحشی کا طلبگار ہے کون