جمعرات، 31 دسمبر، 2015

وہ آخری چند دن دسمبر کے

وہ آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گِراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے
کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنُما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک سے لائینیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سِمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
اک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہونگے
اُن کی آنکھوں کے خواب دنوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نِشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا

امجد اسلام امجد

تلاش


میں کب سے اپنی تلاش میں ہوں، ملا نہیں ہوں
سوال یہ ہے کہ میں کہیں ہوں بھی، یا نہیں ہوں

یہ میرے ہونے اور نہ ہونے سے منکشف ہے
کہ رزمِ ہستی میں کیا ہوں میں اور کیا نہیں ہوں

میں شب نژادوں میں صبحِ فردا کی آرزو ہوں
میں اپنے امکاں میں روشنی ہوں، صبا نہیں ہوں

گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے
مگر ابھی اس کی کشتِ دل میں کھلا نہیں ہوں

نجانے کتنے خداؤں کے درمیاں ہوں، لیکن
ابھی میں اپنے ہی حال میں ہوں، خدا نہیں ہوں

کبھی تو اقبال مند ہوگی مری محبت
نہیں ہے امکاں کوئی مگر، مانتا نہیں ہوں

ہواؤں کی دسترس میں کب ہوں جو بُجھ رہوں گا

میں استعارہ ہوں روشنی کا، دیا نہیں ہوں


نہیں اس خرابات میں اذنِ لغزش
یہ دنیا ہے اے قلبِ مضطر سنبھل
مجید امجد

بدھ، 30 دسمبر، 2015

خاموشی


یہ خاموشی جو ،اب کے گفتگو کے بیچ ٹھہری ہے
یہی اک بات، ساری گفتگو میں سب سے گہری ہے

ہر قدم مرحلہ ء دار و صلیب آج بھی ہے......ساحرلدھیانوی

ہر قدم مرحلہ ء دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے

جگمگاتے ہیں اُفق پر یہ ستارے لیکن 
راستہ منزلِ ہستی کا مہیب آج بھی ہے

سرِ مقتل جنھیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سرِ منبر کوئی محتا ط خطیب آج بھی ہے

یہ تیری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سارگِ جاں کے قریب آج بھی ہے

کون جانے یہ تیرا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداوں کا رقیب آج بھی ہے

ساحرلدھیانوی

یہ فخر تو حاصل ہے, برے ہیں کہ بھلےہیں.......ادا جعفری

یہ فخر تو حاصل ہے, برے ہیں کہ بھلےہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرےساتھ چلے ہیں
جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
پہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہيں
تھے کتنے ستارے کہ سرشام ہی ڈوبے
ہنگام سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گۓ ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وه لوگ جلے ہیں
ایک شمع بجھائی تو کئی اور جلالیں
ہم گردش دوراں سے بڑی چال چلے ہیں
ادا جعفری

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

عمر لمبی ہے

دشمنوں کی محفل میں سازش ہو رہی تھی میرے قتل کی
ہم اچانک پہنچے تو بولے, یا ر تیری عمر لمبی ہے

ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشنِ گریہ کا اہتمام کریں
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
مجھ کو محرومیِ نظارہ قبول مگر
آپ جلوے نہ اپنے عام کریں
اک گزارش ہے حضرت ناصح
آپ اب اور کوئی کام کریں
آ چلیں اس کے در پہ اب اے دل
زندگی کا سفر تمام کریں
ہاتھ ہٹتا نہیں ہے دل سے خمار
ہم انہیں کس طرح سلام کریں
خمار بارہ بنکوی

منگل، 29 دسمبر، 2015

تن اُجلا من میلا , سادھو نام انیک
اس سے کالا کوّا بھلا , جو اندر باہر ایک
عادت ہی بنا لی ہے
اس شہر کے لوگوں نے
انداز بدل لینا
آواز بدل لینا
دنیا کی محبت میں
اطوار بدل لینا
موسم جو نیا آئے
رفتار بدل لینا
اغیار وہی رکھنا
احباب بدل لینا