منگل، 29 مارچ، 2016

آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر........ وصی شاہ


آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم

ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب
راستے کھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

چاند کی کرنوں نے ہم کو اسطرح بوسہ دیا
دیوتا ہونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

دھر گیا الزام جب سے اپنی حرمت پر کوئی 
بارشیں دھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم

آج پھر محرومیوں کی داستان اوڑھ کر
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم

کھو گئے اندازبھی، آواز بھی، الفاظ بھی
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں، محبت اور تم



بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے................ وصی شاہ

بھنور کی گود میں جیسے کنارہ ساتھ رہتا ہے
کچھ ایسے ہی تمہارا اور ہمارا ساتھ رہتا ہے

محبت ہو کہ نفرت ہو اسی سے مشورہ ہوگا
میری ہر کیفیت میں استخارہ ساتھ رہتا ہے

سفر میں عین ممکن ہے میں خود کو چھوڑ دوں لیکن
دعائیں کرنے والوں کا سہارا ساتھ رہتا ہے

میرے مولا نے مجھ کو چاہتوں کی سلطنت دے دی
مگر پہلی محبت کا خسارہ ساتھ رہتا ہے

اگر سید میرے لب پر محبت ہی محبت ہے
تو پھر یہ کس لیے نفرت کا دھارا ساتھ رہتا ہے



ہفتہ، 12 مارچ، 2016

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے..... فیض احمد فیض

 نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے 

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کاگلہ کریں 
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں خوفِ روزِ سیاہ ہمیں کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن جو لگن اس آئینہ رو کی ہے



ہفتہ، 5 مارچ، 2016

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں....... حفیظ جالندھری

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں

قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں

ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
کِیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں

ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا 
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں

یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بَلا ہو گیا ہوں میں

اُٹّھا ہوں اک جہانِ خموشی لئے ہوئے
ٹُوٹے ہوئے دِلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں



دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا......... جون ایلیاﺀ

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا

ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا

نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا

جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں جا کے مر رہا

شہرِ فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچہ یاد یار سے، کوئی نہیں اُبھر رہا



سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے...... احمد فراز


سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے

اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے