اتوار، 17 اپریل، 2016



سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی 
تہمت تمہارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی 

رندوں کے ڈر سے آتشِ مے کے بغیر بھی
ہے میکدے میں آگ برابر لگی ہوئی

آباد کرکے شہرِ خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغِ ستمگر لگی ہوئی 

آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام
بازی میانِ قاتل و خنجر لگی ہوئی

لاؤ تو قتل نامہ میرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی


اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی......... حبیب جالب

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی 

یہ بات نئی نسل کو سمجھانا پڑے گی 
کہ عریاں کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی 

سر آنکھوں پر ہم اسکو بٹھالیتے ہیں اکثر
جسکے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی 

ہر شخص  اپنے سر پر کفن باندھ کر نکلے
حق کےلیے لڑنا تو کبھی بغاوت نہیں ہوتی